کبھی نہ میں نے داغ لگایا عشق کے اجلے چہرے پر
کبھی شراب نہ پی تِرے غم میں پاؤں نہ رکھا کوٹھے پر
تُو نے میری گاگر ریت سے بھر دی میرا دوش تھا کیا
میں تو پانی میں اترا تھا دریا! تیرے کہنے پر
یا د ہے، ایک کبوتر تیری چھت پر آیا کرتا تھا
اس لڑکی کے ساتھ رہیں گی میرے عشق کی خوشبوئیں
میرے اشکوں کی شبنم ہے جس کے پھول سے چہرے پر
کچھ پل ٹھہرا، پھوٹ کے رویا، آہ بھری، پھر لوٹ گیا
جانے فقیر نے کس کو دیکھا شہر کے اونچے بنگلے پر
اس کے علاوہ میری بصارت کون مجھے لوٹائے گا
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا ہوں میں جس کے دروازے پر
سُوکھے باغوں پر ساون کے بادل چھا جاتے تھے اشکؔ
جب ہم روتے تھے سر رکھ کے اک دوجے کے شانے پر
پروین کمار اشک
No comments:
Post a Comment