Monday, 3 October 2016

کبھی نہ میں نے داغ لگایا عشق کے اجلے چہرے پر

کبھی نہ میں نے داغ لگایا عشق کے اجلے چہرے پر
کبھی شراب نہ پی تِرے غم میں پاؤں نہ رکھا کوٹھے پر
تُو نے میری گاگر ریت سے بھر دی میرا دوش تھا کیا
میں تو پانی میں اترا تھا دریا! تیرے کہنے پر
یا د ہے، ایک کبوتر تیری چھت پر آیا کرتا تھا
کچھ دن پہلے کسی نے گولی مار دی اس کے سینے پر
اس لڑکی کے ساتھ رہیں گی میرے عشق کی خوشبوئیں 
میرے اشکوں کی شبنم ہے جس کے پھول سے چہرے پر
کچھ پل ٹھہرا، پھوٹ کے رویا، آہ بھری، پھر لوٹ گیا
جانے فقیر نے کس کو دیکھا شہر کے اونچے بنگلے پر
اس کے علاوہ میری بصارت کون مجھے لوٹائے گا 
اپنی آنکھیں چھوڑ آیا ہوں میں جس کے دروازے پر
سُوکھے باغوں پر ساون کے بادل چھا جاتے تھے اشکؔ
جب ہم روتے تھے سر رکھ کے اک دوجے کے شانے پر

پروین کمار اشک

No comments:

Post a Comment