یہ چند سانسیں جو دی ہیں تو اختیار بھی دے
کہ میرے ہونے کا اب مجھ کو اعتبار بھی دے
تھکن بلا کی سفر سے ہے، جسم ٹوٹتا ہے
شکستہ ناؤ، کسی گھاٹ اب اتار بھی دے
فلک کو پوری خوشی کب کسی کی بھاتی ہے
کھِلائے پھول کچھ ایسے کہ کھِل اٹھے چہرہ
پہ رُت ہے ایسی جو اندر سے مجھ کو مار بھی دے
تیرے ہی بس میں ہے خلّاق پالنے والے
دلوں کو چَین بھی دے صبر بھی قرار بھی دے
ناصر علی سید
No comments:
Post a Comment