Saturday, 1 October 2016

یہ چند سانسیں جو دی ہیں تو اختیار بھی دے

یہ چند سانسیں جو دی ہیں تو اختیار بھی دے 
کہ میرے ہونے کا اب مجھ کو اعتبار بھی دے
تھکن بلا کی سفر سے ہے، جسم ٹوٹتا ہے 
شکستہ ناؤ، کسی گھاٹ اب اتار بھی دے
فلک کو پوری خوشی کب کسی کی بھاتی ہے 
گلوں کو رنگ بھی، خوشبو بھی دے تو خار بھی دے
کھِلائے پھول کچھ ایسے کہ کھِل اٹھے چہرہ 
 پہ رُت ہے ایسی جو اندر سے مجھ کو مار بھی دے
 تیرے ہی بس میں ہے خلّاق پالنے والے
دلوں کو چَین بھی دے صبر بھی قرار بھی دے

ناصر علی سید

No comments:

Post a Comment