Saturday, 1 October 2016

کب کہا تھا کہ مجھے وہم و گماں کھینچتا ہے

کب کہا تھا کہ مجھے وہم و گماں کھینچتا ہے
ہاں تِرا ہِجر مسلسل مِری جاں کھینچتا ہے
تُو کہ اس وادئ حیراں میں الگ مجھ سے ہُوا
نیلے پربت کو جہاں زرد دھواں کھینچتا ہے
جھیل اور چاند کے منظر میں اکیلا ہوں کھڑا
یاد ہے تُو نے کہا تھا یہ سماں کھینچتا ہے
کن خرابوں میں محبت تِری لے آئی ہے
دل مجھے روکتا ہے، کارِجہاں کھینچتا ہے
آج آئینہ نے مجھ سے یہ عجب بات کہی
چہرہ بُجھتا ہے تو پھر کارِ زیاں کھینچتا ہے
میں تو بس ایک ہی لمحے کا یہاں ہو جاتا 
کشتئ جاں کو مگر وقتِ رواں کھینچتا ہے
پا بجولاں میں چلا آیا تو ہوں محفل میں
دیکھ دیوانے کو اب کون کہاں کھینچتا ہے

ناصر علی سید

No comments:

Post a Comment