یہ اور بات کہ موجود اپنے گھر میں ہوں
میں تیری سمت مگر مستقل سفر میں ہوں
نہ جانے اگلی گھڑی کیا سے کیا میں بن جاؤں
ابھی تو چاک پہ ہوں، دستِ کوزہ گر میں ہوں
میں اپنی فکر کی تجسیم کس طرح سے کروں
نہ جانے کون سا موسم مجھے ہرّا کر دے
نمُو کے واسطے بے تاب ہوں شجر میں ہوں
یہ دوستی بھی عجب چوبِ خشک ہے ناصرؔ
نِبھا رہا ہوں، مگر ٹوٹنے کے ڈر میں ہوں
ناصر علی سید
No comments:
Post a Comment