Saturday 1 October 2016

یہ اور بات کہ موجود اپنے گھر میں ہوں

یہ اور بات کہ موجود اپنے گھر میں ہوں
میں تیری سمت مگر مستقل سفر میں ہوں
نہ جانے اگلی گھڑی کیا سے کیا میں بن جاؤں 
ابھی تو چاک پہ ہوں، دستِ کوزہ گر میں ہوں
میں اپنی فکر کی تجسیم کس طرح سے کروں 
بُریدہ دست ہوں، اور شہرِ بے ہنر میں ہوں
نہ جانے کون سا موسم مجھے ہرّا کر دے 
نمُو کے واسطے بے تاب ہوں شجر میں ہوں
یہ دوستی بھی عجب چوبِ خشک ہے ناصرؔ
نِبھا رہا ہوں، مگر ٹوٹنے کے ڈر میں ہوں

ناصر علی سید

No comments:

Post a Comment