عزم میں آفتاب سا ایک دِیا جلا ہوا
آندھی میں کیسے ڈٹ گیا ایک دِیا جلا ہوا
ڈوبے ہیں تیرگی میں سب، طالبِ روشنی ہیں سب
ظلمت کدوں کی اِلتجا، ایک دِیا جلا ہوا
موت و حیات کی یہی تمثیل بھی ہے اصل بھی
قصہ شبِ فراق کا ہم نے بھی مختصر کِیا
سامنے ان کے رکھ دیا ایک دِیا جلا ہوا
جلیل نظامی
No comments:
Post a Comment