Saturday, 1 October 2016

بر سر عام میرا حال زبوں پوچھتے ہیں

بر سرِ عام میرا حالِ زبوں پوچھتے ہیں
بات گھر کی تھی وہ بازار میں کیوں پوچھتے ہیں
کیا بتاؤں میں انہیں،۔ آپ بتائیں مجھ کو
بھول جاؤں کہ تجھے یاد رکھوں، پوچھتے ہیں
سُرمئی شام کی بانہوں میں سمٹتے سائے
زلف کا خم، تیری چِتون کا فْسوں پوچھتے ہیں
آبلے پاؤں کے تکتے ہیں بڑی حیرت سے
مجھ سے جب نام میرا اہلِ جنوں پوچھتے ہیں
آرزو مند وہی ہیں میری بربادی کے
جو میری خیریتِ سوزِ دروں پوچھتے ہیں
خواہشیں ختم ہوئی بھِیڑ میں گم ہونے کی
اب تو سناٹوں سے ہم راہِ سکوں پوچھتے ہیں
قدردانی کو جلیلؔ اہل نظر بھی اب تو
فن نہیں دیکھتے فنکار کا خوں پوچھتے ہیں

جلیل نظامی

No comments:

Post a Comment