لگتا ہے یہی آنکھ ابھی پائی کہاں ہے
بینائی کا دعویٰ تو ہے بینائی کہاں ہے
کہنا تو بہت کچھ ہے مگر کس سے کہوں میں
افسوس تِرے شہر میں شنوائی کہاں ہے
رشتہ ہی لہو رنگ نہیں ہے کوئی باقی
ہم بھی کوئی مرنے کا ارادہ نہیں رکھتے
تم نے بھی تو جینے کی قسم کھائی کہاں ہے
اللہ نظرِ بد سے بچائے، مِرے بیٹے
کمزوری ہے تُو میری توانائی کہاں ہے
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment