ذرا سی آنکھ لگی تھی کہ خواب جاگ گئے
نشیلی رات میں خانہ خراب جاگ گئے
نگاہِ ناز، مِری سمت اٹھ گئی تھی ذرا
ہتھیلیوں پہ مِری ماہتاب جاگ گئے
نکلتی جاتی ہے تصویر آئینے سے کئی
بس ایک صفحۂ دل کھل گیا تھا پھر یوں ہی
حضور جاگے تو مثلِ کتاب جاگ گئے
اسی کے ساتھ رہے اور اسی کو ڈھونڈا کیے
سمندروں میں بھی اب کے سراب جاگ گئے
فقیر جب سے بیاباں میں بس گئے جا کر
سنا ہے شہر کے سارے عتاب جاگ گئے
ابھی تو وقت تھا سونے کا خوب سونے کا
یہ کیا ہوا کہ سرِ شب جناب جاگ گئے
مظفر ابدالی
No comments:
Post a Comment