بیاباں کو پشیمانی بہت ہے
کہ شہروں میں بیابانی بہت ہے
مِرے ہنسنے پہ دنیا چونک اٹھی
مجھے بھی خود پہ حیرانی بہت ہے
چلو صحرا کو بھی اب آزمائیں
خدا محفوظ رکھے فصلِ دل کو
کہیں سُوکھا، کہیں پانی بہت ہے
کہیں بادل، کہیں پیڑوں کے ساۓ
اجالوں پر نگہبانی بہت ہے
بہکنا میری فطرت میں نہیں، پر
سنبھلنے میں پریشانی بہت ہے
مظفر ابدالی
No comments:
Post a Comment