Saturday, 1 October 2016

بیاباں کو پشیمانی بہت ہے

بیاباں کو پشیمانی بہت ہے
کہ شہروں میں بیابانی بہت ہے
مِرے ہنسنے پہ دنیا چونک اٹھی
مجھے بھی خود پہ حیرانی بہت ہے
چلو صحرا کو بھی اب آزمائیں
سنا تھا گھر میں آسانی بہت ہے
خدا محفوظ رکھے فصلِ دل کو
کہیں سُوکھا، کہیں پانی بہت ہے
کہیں بادل، کہیں پیڑوں کے ساۓ
اجالوں پر نگہبانی بہت ہے
بہکنا میری فطرت میں نہیں، پر
سنبھلنے میں پریشانی بہت ہے

مظفر ابدالی

No comments:

Post a Comment