Monday, 3 October 2016

سنو یہ تخت ہی مسمار ہونے والا ہے

سنو، یہ تخت ہی مسمار ہونے والا ہے
یہ کام بھی میری سرکار ہونے والا ہے
بتا رہی ہے مجھے کوئی اجنبی آہٹ
مِرے وطن پہ کوئی وار ہونے والا ہے
خزاں رہے گی میاں یا بہار آئے گی
یہ فیصلہ سرِ بازار ہونے والا ہے
جو سو رہا تھا کسی کے حسین وعدوں سے
سنا ہے شیر وہ بیدار ہونے والا ہے
وہ قصرِ شاہی میں بیٹھا ہے آمروں کی طرح
ہمارا لہجہ بھی تلوار ہونے والا ہے
تمہیں مشیر ہی مروائیں گے تمہارے سب
کہ ختم اب تو یہ دربار ہونے والا ہے
منافقوں کے لیے ہو رہی ہے تنگ زمین
کہ ختم سب ہی کا کردار ہونے والا ہے
چلے گا کیسے میاں ظلم و جور اب یونہی
یہ دور ختم مِری سرکار ہونے والا ہے
رکاوٹیں یہ تمہیں اب بچا نہ پائیں گی
یہ فیصلہ بھی سرِ دار ہونے والا ہے
کھِلیں گے پھول میاں پھر بہار آئے گی
یہ دشت جلد ہی گلزار ہونے والا ہے
غرور خاک میں مل جائے گا تمہارا سب
یہ حادثہ سرِ دربار ہونے والا ہے
اندھیرا راج کرے گا کہ روشنی ہو گی
یہ فیصلہ ابھی انوارؔ ہونے والا ہے

انوار فیروز

No comments:

Post a Comment