سفر تو اور بھی دشوار ہونے والا ہے
وہ شخص قافلہ سالار ہونے والا ہے
مِرے عزیز! جسے پیار ہونے والا ہے
وہ مشکلات سے دوچار ہونے والا ہے
ہم اس کے ساتھ نمازوں میں کیا گئے کچھ دن
تمہاری تِرچھی نظر کیمرے سے چھپ نہ سکی
تمہارا دیکھنا "شہکار" ہونے والا ہے
جنون، لہجے میں جِدت کا اور نظم گوئی
وہ شاعری میں بھی گلزار ہونے والا ہے
وہ کچھ دنوں سے ہماری طرف نہیں آیا
یہ لگ رہا ہے وہ خوددار ہونے والا ہے
میں بار بار تِرا ذکر چھیڑ دیتا ہوں
مجھے گماں ہے مجھے پیار ہونے والا ہے
وہ کس طرح تِرے در سے پلٹ کے آئے گا
جسے جسے تِرا دیدار ہونے والا ہے
انوار فیروز
No comments:
Post a Comment