Sunday 1 January 2017

قائد اعظم کی تربت سے ابھی آیا ہوں میں

قائد اعظم کی قبر پر سانحۂ مشرقی پاکستان کے بعد حاضری اور التجا

قائد اعظم کی تُربت سے ابھی آیا ہوں میں
نظم کی لڑیوں میں کچھ موتی پِرو لایا ہوں میں
میں گیا تھا پھول لے کر وہ تو سب مرجھا گئے
آپ بھی سنیے کہ آنسو آنکھ میں کیوں آ گئے
چند کلیاں فرش پر بکھری تھیں مرجھائی ہوئی
قبرِ قائد پر تھی ایک اجڑی دلہن آئی ہوئی
آرسی کے آئینے میں بال تھا آیا ہوا
جگمگاتی کہکشاں کا رنگ کجلایا ہوا
قبر سے مٹی اٹھا کر مانگ میں بھرتی تھی وہ
رخ پہ گھونگھٹ کو گرا کر بین یوں کرتی تھی وہ
سونے والے میں تمہارے خواب کی تعبیر ہوں
قائد اعظم میں وہ جاگیر ہوں تصویر ہوں
شاعرِ مشرق نے جس کی مانگ میں افشاں بھری
قائدِ ملت سے جس کے ہاتھ میں مہندی رچی
گیت وحدت کا میری شادی کے دن گایا گیا
چاند اور تارے کا آنچل مجھ پہ لہرایا گیا
میں کہ یکجہتی کے گہنوں‌ سے ہوئی آراستہ
عزم و ایثار و اخوت سے ہوئی پیراستہ
تھے کروڑوں مرد و زن شامل میری بارات میں
سچ کی کلیاں سی کِھلی تھیں خون کی برسات میں
نعرۂ تکبیر کی شہنائیوں میں آئی تھی​
خون اور تلوار کی پرچھائیوں میں آئی تھی
میرا ڈولا گھر میں لا کر آپ جا کر سو گئے
آپ کے جاتے ہی اس گھر میں‌ اندھیرے ہو گئے
بعد میں کچھ رنگ بدلا اس طرح حالات کا
جس طرح بارات میں ‌نوشہ نہ ہو بارات کا
قائد اعظم گئے تو ہو گیا سونا وطن
قائدِ ملت گئے تو اس طرح اجڑا چمن
باغبانوں نے گلستاں کی بہاریں لوٹ لیں
کچھ لٹیروں نے شبستاں کی بہاریں‌ لوٹ لیں
جو بھی آیا جھولیاں پھولوں سے بھر کر لے گیا
اور کوئی بلبلوں کے پر کتر کر لے گیا
بلبلوں کے گیت جگنو کی چمک تک لے گئے
قطرۂ شبنم کے چہروں کی دمک تک لے گئے​
چند بے دینوں کے گھر سونے کے مندر بن گئے
خون پی پی کر چمن کا وہ سکندر بن گئے
خان زادوں نے مجھے لونڈی بنایا بعد میں
ہر سیاست دان نے مجھ کو نچایا بعد میں
مشرق و مغرب میں میرا بانکپن لوٹا گیا
تیری محنت کی کمائی کا چمن لوٹا گیا
عظمتیں اسلاف کی سورج صفت ڈھلتی رہیں
کرسیوں کی آرزو میں کرسیاں چلتی رہیں
الغرض اس کشمکش میں مشرقی حصہ گیا
آج میرے واسطے اک دردِ دائم رہ گیا
تیرے کچھ بیٹوں نے اپنی ماں کا زیور کھو دیا
ایک گوہر کان میں ‌ہے ایک گوہر کھو دیا
حیف اس گھر کے اجڑنے پر کوئی رویا نہیں
تیرے بیٹے کہہ رہے ہیں ہم نے کچھ کھویا نہیں

مشیر کاظمی

No comments:

Post a Comment