دلوں میں فرق ہے تو گفتگو سے کچھ نہیں ہو گا
چل اٹھ تشنہ لبی! جام و سبو سے کچھ نہیں ہو گا
نہ پوری ہو سکی جو آرزو اب تک وہ کہتی ہے
جو پوری ہو گئی اس آرزو سے کچھ نہیں ہو گا
میاں جب اتنے سارے دوستوں سے کچھ نہیں بگڑا
گریباں خارجیت اور وحشت داخلیت ہے
لہٰذا خارجیت کے رفو سے کچھ نہیں ہو گا
تعفن کے لیے نام و نمو کی دوڑ میں ہیں ہم
ہمیں معلوم ہے نام و نمو سے کچھ نہیں ہو گا
شجاعؔ تیری ہی تحت اللفظ سے کچھ ہو تو ہو، ورنہ
غزل میں شاعرانِ خوش گلو سے کچھ نہیں ہو گا
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment