Thursday, 12 January 2017

دلوں میں فرق ہے تو گفتگو سے کچھ نہیں ہو گا

دلوں میں فرق ہے تو گفتگو سے کچھ نہیں ہو گا
چل اٹھ تشنہ لبی! جام و سبو سے کچھ نہیں ہو گا
نہ پوری ہو سکی جو آرزو اب تک وہ کہتی ہے
جو پوری ہو گئی اس آرزو سے کچھ نہیں ہو گا
میاں جب اتنے سارے دوستوں سے کچھ نہیں بگڑا
ہمیں معلوم ہے اب اک عدو سے کچھ نہیں ہو گا
گریباں خارجیت اور وحشت داخلیت ہے
لہٰذا خارجیت کے رفو سے کچھ نہیں ہو گا
تعفن کے لیے نام و نمو کی دوڑ میں ہیں ہم
ہمیں معلوم ہے نام و نمو سے کچھ نہیں ہو گا
شجاعؔ تیری ہی تحت اللفظ سے کچھ ہو تو ہو، ورنہ
غزل میں شاعرانِ خوش گلو سے کچھ نہیں ہو گا

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment