Thursday, 12 January 2017

درسی کتب میں اس کا حوالہ تو ہے نہیں

درسی کتب میں اس کا حوالہ تو ہے نہیں 
اوجِ خیال، کوہِ ہمالہ تو ہے نہیں
کانٹے نصیب ہیں بھی تو کس کام کے میاں
سر کا فتور، پاؤں کا چھالہ تو ہے نہیں
سن سن کے شعر کیوں ہوئے جاتے ہیں زیر آپ
بندے کے ہاتھ میں کوئی بھالا تو ہے نہیں
سقراط اب مصاحبِ شاہانِ وقت ہے
تائید کوئی زہر کا پیالہ تو ہے نہیں
آوازۂ فقیر تو ہل چل مچائے گا
عشاقِ نا مراد کا نالہ تو ہے نہیں
ناقد کی شاعری تو نہیں میری شاعری
اصلی نکاح ہے یہ حلالہ تو ہے نہیں
نالہ تو دِل سے نکلے گا پیہم فراق میں
اردو زبان کا یہ رسالہ تو ہے نہیں
اب امتحان فہم و فراست کا ہے میاں
محفل سے اس نے ہم کو نکالا تو ہے نہیں
آرام سے بنائیے دیوار و در شجاعؔ
صحرا میں کوئی دیکھنے والا تو ہے نہیں

شجاع خاور

No comments:

Post a Comment