درسی کتب میں اس کا حوالہ تو ہے نہیں
اوجِ خیال، کوہِ ہمالہ تو ہے نہیں
کانٹے نصیب ہیں بھی تو کس کام کے میاں
سر کا فتور، پاؤں کا چھالہ تو ہے نہیں
سن سن کے شعر کیوں ہوئے جاتے ہیں زیر آپ
سقراط اب مصاحبِ شاہانِ وقت ہے
تائید کوئی زہر کا پیالہ تو ہے نہیں
آوازۂ فقیر تو ہل چل مچائے گا
عشاقِ نا مراد کا نالہ تو ہے نہیں
ناقد کی شاعری تو نہیں میری شاعری
اصلی نکاح ہے یہ حلالہ تو ہے نہیں
نالہ تو دِل سے نکلے گا پیہم فراق میں
اردو زبان کا یہ رسالہ تو ہے نہیں
اب امتحان فہم و فراست کا ہے میاں
محفل سے اس نے ہم کو نکالا تو ہے نہیں
آرام سے بنائیے دیوار و در شجاعؔ
صحرا میں کوئی دیکھنے والا تو ہے نہیں
شجاع خاور
No comments:
Post a Comment