گل نہیں، غنچہ نہیں، رنگ کے آثار نہیں
آنکھ کو طاقتِ نظارۂ اشجار نہیں
اب تجھے کیسے دکھائی تیرا باطن دے گا
چشمِ بینا بھی نہیں، روح بھی بیدار نہیں
توڑتا کیوں نہیں وہ بت جو تیرے اندر ہے
تُو جو بتخانے میں، مندر میں، کلیسا میں بھی ہے
کیسے میں مانوں کہ تو حامئ اغیار نہیں
اے خدا! قربِ قیامت کی نشانی ہی تو ہے
کہ تیرے گھر میں بھی اب سایۂ دیوار نہیں
آ کے اب تُو ہی ذرا میری لگاموں کو سنبھال
میرے قابو میں میری ذات کا رہوار نہیں
رضا نقوی
No comments:
Post a Comment