Monday, 16 January 2017

گل نہیں غنچہ نہیں رنگ کے آثار نہیں

گل نہیں، غنچہ نہیں، رنگ کے آثار نہیں
آنکھ کو طاقتِ نظارۂ اشجار نہیں
اب تجھے کیسے دکھائی تیرا باطن دے گا
چشمِ بینا بھی نہیں، روح بھی بیدار نہیں
توڑتا کیوں نہیں وہ بت جو تیرے اندر ہے
خوئے تسلیم کو کیوں جرأتِ انکار نہیں
تُو جو بتخانے میں، مندر میں، کلیسا میں بھی ہے
کیسے میں مانوں کہ تو حامئ اغیار نہیں
اے خدا! قربِ قیامت کی نشانی ہی تو ہے
کہ تیرے گھر میں بھی اب سایۂ دیوار نہیں
آ کے اب تُو ہی ذرا میری لگاموں کو سنبھال 
میرے قابو میں میری ذات کا رہوار نہیں

رضا نقوی

No comments:

Post a Comment