بات مشکل تھی تو آسان بھی ہو سکتی تھی
دنیا راحت کدۂ جان بھی ہو سکتی تھی
ظرف کی بات تھی گر ظرف کشادہ ہوتا
آنکھ ساقی کی مہربان بھی ہو سکتی تھی
ہم رہے اپنی اناؤں کے بھنور میں الجھے
بیج نفرت کے اگر بوۓ نہ ہوتے ہم نے
آگ کی کھیتی گلستان بھی ہو سکتی تھی
رخِ جاناں پہ اگر تِل کا نہ ہوتا پہرہ
زلف پھر حسن کی نگران بھی ہو سکتی تھی
شعر کہنے کے لیے ہجر ضروری تھا ترا
ورنہ تُو وصل کا سامان بھی ہو سکتی تھی
رضا نقوی
No comments:
Post a Comment