غمِ دنیا سے ایسی پائمالی ہوتی جاتی ہے
تری صورت بھی تصویرِ خیالی ہوتی جاتی ہے
کبھی سر انکے قدموں میں کبھی ہاتھ انکے دامن پر
طبیعت ان دنوں کچھ لاابالی ہوتی جاتی ہے
نگاہیں منتظر تھیں کب کِرن پھُوٹے سحر جاگے
نہ زلفوں کے فدائی ہیں، نہ زنجیروں کے شیدائی
یہ دنیا اب تو دیوانوں سے خالی ہوتی جاتی ہے
مِری تشنہ لبی میری صراحی میں چھلک آئی
وہ پہیم بھرتے جاتے ہیں یہ خالی ہوتی جاتی ہے
آل احمد سرور
No comments:
Post a Comment