Wednesday, 1 July 2020

ہم نہ اس ٹولی میں تھے یارو نہ اس ٹولی میں تھے

ہم نہ اس ٹولی میں تھے یارو نہ اس ٹولی میں تھے
نے کسی کی جیب میں تھے نہ کسی جھولی میں تھے
بندہ پرور! صرف نظارے پہ قدغن کس لیے؟
پھول پھل جو باغ کے تھے آپ کی جھولی میں تھے
آپ کے نعروں میں للکاروں میں کیسے آئیں گے
زمزمے جو ان کہی اک پیار کی بولی میں تھے
پھر کسی کوفے میں "تنہا" ہے کوئی ابنِ عقیل
اس کے ساتھی سب کے سب سرکار کی ٹولی میں تھے
اب دھنک کے رنگ بھی ان کو بھلے لگتے نہیں
مست سارے شہر والے خون کی ہولی میں تھے

آل احمد سرور

No comments:

Post a Comment