جبر حالات کا تو نام لیا ہے تم نے
اپنے سر بھی کبھی الزام لیا ہے تم نے
میکشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو
ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے
عمر گزری ہے اندھیرے کا ہی ماتم کرتے
ہم فقیروں سے ستائش کی تمنا کیسی؟
شہریاروں سے جو انعام لیا ہے تم نے
قرض بھی ان کے معانی کا ادا کرنا ہے
گرچہ لفظوں سے بڑا کام لیا ہے تم نے
ان اصولوں کےکبھی زخم بھی کھائے ہوتے
جن اصولوں کا بہت نام لیا ہے تم نے
لب پہ آتےہیں بہت ذوقِ سفر کے نغمے
اور ہر گام پہ "آرام" لیا ہے تم نے
آل احمد سرور
No comments:
Post a Comment