Wednesday, 1 July 2020

اپنے سر بھی کبھی الزام لیا ہے تم نے

جبر حالات کا تو نام لیا ہے تم نے
اپنے سر بھی کبھی الزام لیا ہے تم نے
میکشی کے بھی کچھ آداب برتنا سیکھو
ہاتھ میں اپنے اگر جام لیا ہے تم نے
عمر گزری ہے اندھیرے کا ہی ماتم کرتے
اپنے شعلے سے بھی کچھ کام لیا ہے تم نے؟
ہم فقیروں سے ستائش کی تمنا کیسی؟
شہریاروں سے جو انعام لیا ہے تم نے
قرض بھی ان کے معانی کا ادا کرنا ہے
گرچہ لفظوں سے بڑا کام لیا ہے تم نے
ان اصولوں کےکبھی زخم بھی کھائے ہوتے
جن اصولوں کا بہت نام لیا ہے تم نے
لب پہ آتےہیں بہت ذوقِ سفر کے نغمے
اور ہر گام پہ "آرام" لیا ہے تم نے

آل احمد سرور

No comments:

Post a Comment