Friday, 3 July 2020

نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی

نہ وہ خزاں رہی باقی نہ وہ بہار رہی
رہی تو میری کہانی ہی یادگار رہی
وہی نظر ہے نظر جو بایں ہمہ پستی
ستارہ گیر رہی، کہکشاں شکار رہی
شبِ بہار میں تاروں سے کھیلنے والے
کسی کی آنکھ بھی شب بھر ستارہ بار رہی
"تمام عمر رہا گرچہ میں "تہی پہلو
بسی ہوئی مِرے پہلو میں بوئے یار رہی
کوئی عزیز نہ ٹھہرا ہمارے دفن کے بعد
رہی جو پاس تو "شمع سرِ مزار" رہی
وہ پھول ہوں جو کھلا ہو، خزاں کے موسم میں
تمام عمر مجھے "حسرتِ بہار" رہی
کبھی نہ بھولیں گی اس شب کی لذتیں اختر
کہ میرے سینے پہ وہ "زلفِ مشکبار" رہی

اختر شیرانی

No comments:

Post a Comment