تو کیا شوخ آنکھوں میں بے رنگ خوابوں کا عقدہ کھلا ہے
کسی پر وہ کھل بھی گیا ہے تو اے دوست! کتنا کھلا ہے
بڑی دیر کے بعد اس نے جوابی ہنسی ہم پہ پھینکی
بڑی مشکلوں سے ہمارے لیے وہ "اشارہ" کھلا ہے
وہ آنکھیں جنہیں میرے رستے سے اٹھنے کی عادت نہیں ہے
میں ایک ایسی بستی کی آزادیوں پر قصیدے لکھوں گا
جہاں پر پرندوں کے پر بند ہیں، اور پنجرہ کھلا ہے
کئی روز سے خواب میں آ کے کہتے ہیں سارہ و ثروت
سنو! غم اگر حد سے بڑھ جائے تو ایک رستہ کھلا ہے
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment