Friday, 3 July 2020

کسی پر وہ کھل بھی گیا ہے تو اے دوست کتنا کھلا ہے

تو کیا شوخ آنکھوں میں بے رنگ خوابوں کا عقدہ کھلا ہے
کسی پر وہ کھل بھی گیا ہے تو اے دوست! کتنا کھلا ہے
بڑی دیر کے بعد اس نے جوابی ہنسی ہم پہ پھینکی
بڑی مشکلوں سے ہمارے لیے وہ "اشارہ" کھلا ہے
وہ آنکھیں جنہیں میرے رستے سے اٹھنے کی عادت نہیں ہے
وہ دروازہ میرے لیے جو" ہمیشہ ہمیشہ" کھلا ہے
میں ایک ایسی بستی کی آزادیوں پر قصیدے لکھوں گا
جہاں پر پرندوں کے پر بند ہیں، اور پنجرہ کھلا ہے
کئی روز سے خواب میں آ کے کہتے ہیں سارہ و ثروت
سنو! غم اگر حد سے بڑھ جائے تو ایک رستہ کھلا ہے

احمد فرہاد

No comments:

Post a Comment