عجیب دن تھے کہ نام کرنے کا سوچتے تھے
ہم اپنے حصے کا "کام" کرنے کا سوچتے تھے
وہ روشنی تھی ہماری آنکھوں کے طاقچوں میں
چراغ جھک کر سلام کرنے کا سوچتے تھے
یہ زرد پیڑوں کے شاخچوں سے لگے پرندے
گراں گزرنے لگا ہے ان کو "صبا" کا لہجہ
جو تیز لو سے کلام کرنے کا سوچتے تھے
کمال یہ ہے کہ ایک ہی عمر تھی جسے ہم
نجانے کس کس کے نام کرنے کا سوچتے تھے
عجیب خوابوں بهری وہ آنکھیں تھی یار جن پر
ہم اپنی نیندیں "حرام" کرنے کا سوچتے تھے
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment