گردِ گلِ ملال کسی شعر پر نہ ہو
یہ کیا کہ دل کے خون سے بھی لفظ تر نہ ہو
تُو آئے باغ میں تو تیرے احترام میں
واجب ہے کوئی پھول کسی شاخ پر نہ ہو
یہ کیا کہ سانس سانس اذیت بنی رہے
یہ کیا کہ بے ثمر ہی رہے درد کا شجر
یہ کیا کہ خون تھوکیے، لیکن اثر نہ ہو
اک زہر مستقل جو رگوں میں رواں رہے
اک شخص جس کے چھوڑ کے جانے کا ڈر نہ ہو
اک ہجر جس میں مہکا رہے لمس کا کنول
اک وصل جس میں قرب کا کوئی گزر نہ ہو
احمد فرہاد
No comments:
Post a Comment