Saturday, 4 July 2020

رحم کھا کشمکش جاں پہ کوئی راہ نکال

رحم کھا کشمکشِ جاں پہ، کوئی "راہ" نکال
زندہ کرنا ہے تو کر، ورنہ مجھے مار ہی ڈال
ہو گئی مات بھی، اور ہم اسی دُبدھا میں رہے
ہم چلے کون سی چال، آپ چلے کون سی چال؟
یا تو اس رنگ سے کہیۓ کہ "بپا" کیجیۓ حشر
ورنہ پھر کہیۓ ہی کیوں "حشرِ الم" کا احوال
اس "کنویں" سے کسی "یوسف" کی مہک آتی ہے
اے کہ ہے صاحبِ دل تُو بھی، یہاں ڈول نہ ڈال
بھول جاؤ کہ تمہارا کوئی دل تھا راحیل
ہمیں دیکھو، نہ تقاضا، نہ تمنا، نہ خیال

راحیل فاروق​

No comments:

Post a Comment