نظم
گلوبل وارمنگ تیرے ہمیشہ غصے میں رہنے کے باعث بڑھ رہی ہے
تُو ایمازون کے جنگل میں ہر اک سبز شے کی آخری توجیہ
تُو منطق کے اصولوں کی شکست و ریخت کا باعث
تِرے جلتے ہوئے رخسار سے برفیلے کہساروں پہ پھیلی برف پانی ہو رہی ہے
یہ دنیا ناسمجھ ہے اور ناواقف کہ تیرے آنسو اس کو کس قدر مہنگے پڑیں گے
تِری بدلی ہوئی نظروں کے باعث ہیں
تِری یہ غیر جانبداریت کتنی ہی دہشت گرد تنظیموں کی پرودردہ بنی ہے
تِری آنکھوں نے کتنی عالمی جنگوں کی راہ ہموار کر دی ہے
یہ آبی، معدنی قلت ترے دو آنسوؤں کے رائیگاں ہونے کے خمیازے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے
سیہ ہول اب بھی کوشش کر رہے ہیں تیری آنکھوں میں سما جائیں
تُو پتھر کے زمانے میں بھی تہذیبوں کے پتھر دل سلاطیں کے دلوں پر راج کرتی تھی
تجھے تکتے ہی سارے چور اچکے اپنا سب کچھ یوں لٹا بیٹھے
کہ اب ان رہزنوں کی روزی روٹی تیری تصویریں دکھا کر لوٹ لینے سے جڑی ہے
پسینے میں تِرے جلتے بدن نے یہ بتایا؛ آگ اور پانی کی یکجائی بھی ممکن ہے
یہ سارے کیمیا داں آفرینش سے تِری خوشبو کے درپے ہیں
کئی لوگوں نے تیری نقل کر کے کہکشاؤں کی طرف مصنوعی سیارے بھی بھیجے
مگر یہ کام تو تیری ہنسی اب تک بخوبی کر رہی تھی
کروڑوں ایلین دنیا میں بس تیری ہنسی سننے تو آئے ہیں
مگر یہ نظم ادھوری ہے، اور اس میں دن بدن اتنا اضافہ ہو رہا ہے
کہ آنے والے وقتوں میں تِری آنکھیں طبیعاتی اصولوں میں یوں استثنیٰ نکالیں گی
کہ تجھ پر مرنے والوں میں کئی روبوٹ بھی ہوں گے
راز احتشام
راز احتشام
No comments:
Post a Comment