Wednesday, 1 July 2020

جہت کو بے جہتی کے ہنر نے چھین لیا

جہت کو بے جہتی کے ہنر نے چھین لیا
مری نگاہ کو میرے ہی سر نے چھین لیا
ہے کس کے دست کرم میں مہار ناقۂ جاں
سفر کا لطف، غمِ ہم سفر نے چھین لیا
میں اپنی روح کے ذرے سمیٹتا کیوں کر
یہ خاک وہ تھی جسے کوزہ گر نے چھین لیا
بھٹک رہے ہیں جوانی کے نارسا لمحات
بہت سے گھر تھے جنہیں ایک گھر نے چھین لیا
"بقول غالب دانا "گزر ہی جاتی یہ عمر
مگر اسے بھی تِرے رہگزر نے چھین لیا
شکارگاہ شکاری کے خوں سے رنگیں ہے
زمیں کا رزق کسی جانور نے چھین لیا
سفر کی روح تھا وہ ذوق جستجو طالب
جسے چراغِ سرِ رہگزر نے چھین لیا

طالب جوہری

No comments:

Post a Comment