Wednesday, 1 July 2020

وہ بوڑھا بھی کتنا دل کش بوڑھا تھا

وہ بوڑھا بھی کتنا دلکش بوڑھا تھا
یادوں کی دہلیز پہ چپکا بیٹھا تھا
ایک اندھیرے کمرے میں بوڑھا لڑکا
یادوں کی الماری کھولے بیٹھا تھا
شور مچاتے آنسو ٹپ ٹپ گرتے تھے
ہونٹوں پر اک کہر زدہ سناٹا تھا
ایک طرف پھن کاڑھے بیٹھی تھیں راتیں
ایک طرف پُر شور دنوں کا میلا تھا
ٹوٹے پھوٹے چند کھلونوں کے ہمراہ
اک گوشے میں اس کا بچپن رکھا تھا
ہر شوخی پر، ہر معصوم شرارت پر
ماں کے پاکیزہ آنچل کا سایہ تھا
کتنے آنچل اس کے لیے لہراۓ تھے
کتنے رخوں نے اس پہ کرم فرمایا تھا
کیسے کیسے دوست سجیلے بانکے تھے
کیا کیا ان کے ساتھ میں گھومنا پھرنا تھا
پھر ماں کے اصرار پہ اک دن رات ڈھلے
اس کے شبستاں میں کوئی "در" آیا تھا
اس کو بوڑھا ہوتے دیکھ کے بھاگ گیا
اس کے اندر چھپا ہوا جو لڑکا تھا

طالب جوہری

No comments:

Post a Comment