ہم کو "سوادِ شہرِ وفا" میں ہم سفری الزام ہوئی
برسوں اسکے ساتھ پھرے ہیں تب یہ کہانی عام ہوئی
بادل بن کر بادِ صبا کے دوش پہ اڑتی پھرتی تھی
روحِ نمو جب سایۂ گُل میں آئی تو زیرِ دام ہوئی
بے مقصد پرواز سے تھک کر تتلی پھول پہ بیٹھ گئی
نام و نسب کو اپنی گرہ میں باندھ کے ہم خوش ہیں، ورنہ
ہجر سے لے کر ہجرت تک ہر جنس یہاں نیلام ہوئی
کوفے کے سارے دروازے آخر مجھ پر بند رہے
خوفزدہ گلیوں میں تنہا پھرتے پھرتے شام ہوئی
میں نے شاید اپنی "آگ" میں تنہا "جلنا" سیکھ لیا
اس کی آگ میں جل جانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی
گاؤں کے پس منظر میں دن بھر چیخنے والی پن چکی
میرے کل کی خاطر اپنے آج میں بے آرام ہوئی
طالب جوہری
No comments:
Post a Comment