دست نازک سے جو پردے کو سنوارا تم نے
میں یہ سمجھا کہ نوازش سے پکارا تم نے
کیا حقیقت میں غم عشق سے مانوس ہوئے
یا یوں ہی پوچھ لیا حال ہمارا تم نے
میرے مکتوب محبت مجھے واپس دے کر
کر لی تو ہے یہ محبت بھی گوارا تم نے
نسبتاً آج حجابوں میں اضافہ کیسا
غالباً جان لیا دل کا اشارا تم نے
دورِ ماضی کے حسیں گیت سنا کر اکثر
اور بھی دردِ محبت کو نکھارا تم نے
رفتہ رفتہ نہ بھڑک جائے وہ شعلہ بن کر
رکھ دیا ہے جو مرے دل میں شرارہ تم نے
حیف صد حیف کہ دنیائے طرب میں کھو کر
کر لیا درد کے ماروں سے کنارا تم نے
اشک کہتے ہیں کہ پڑھ پڑھ کے جلؔی کی غزلیں
دل میں محسوس کیا درد کا دھارا تم نے
جلی امروہوی
No comments:
Post a Comment