Wednesday, 2 December 2020

دست نازک سے جو پردے کو سنوارا تم نے

 دست نازک سے جو پردے کو سنوارا تم نے

میں یہ سمجھا کہ نوازش سے پکارا تم نے

کیا حقیقت میں غم عشق سے مانوس ہوئے

یا یوں ہی پوچھ لیا حال ہمارا تم نے

میرے مکتوب محبت مجھے واپس دے کر

کر لی تو ہے یہ محبت بھی گوارا تم نے

نسبتاً آج حجابوں میں اضافہ کیسا

غالباً جان لیا دل کا اشارا تم نے

دورِ ماضی کے حسیں گیت سنا کر اکثر

اور بھی دردِ محبت کو نکھارا تم نے

رفتہ رفتہ نہ بھڑک جائے وہ شعلہ بن کر

رکھ دیا ہے جو مرے دل میں شرارہ تم نے

حیف صد حیف کہ دنیائے طرب میں کھو کر

کر لیا درد کے ماروں سے کنارا تم نے

اشک کہتے ہیں کہ پڑھ پڑھ کے جلؔی کی غزلیں

دل میں محسوس کیا درد کا دھارا تم نے


جلی امروہوی

No comments:

Post a Comment