Tuesday, 1 December 2020

ہم کو خیال یار کی عادت سی ہو گئی

 ہم کو خیالِ یار کی عادت سی ہو گئی

دل کو بھی انتظار کی عادت سی ہو گئی

دو چار آنسوؤں سے کہاں مل سکا سکوں

آنکھوں کو زار زار کی عادت سی ہو گئی

راہِ حیات میں تھے کھڑے جا بجا ببول

سو ہم کو خارزار کی عادت سی ہو گئی

کچھ اس کو پاس وعدے کا اپنے نہیں رہا

کچھ ہم کو اعتبار کی عادت سی ہو گئی

اک روز اس نے پیار سے دیکھا تھا اور بس

پھر ہم کو اس سے پیار کی عادت سی ہو گئی

ہم نے بھی اب خزاؤں سے رشتہ بنا لیا

اس کو بھی نو بہار کی عادت سی ہو گئی

کانٹے جو اپنے سر کو اٹھانے لگے صدف

پھولوں کے کاروبار کی عادت سی ہو گئی


صبیحہ صدف

No comments:

Post a Comment