Tuesday, 1 December 2020

یہ دسمبر ہے

 یہ دسمبر ہے


سنو! میں جانتی ہوں یہ دسمبر ہے

وہاں سردی بہت ہو گی

اکیلے شام کو جب تم تھکے قدموں سے لوٹو گے

تو گھر میں کوئی بھی لڑکی

سلگتی مسکراہٹ سے

تمہاری اس تھکاوٹ کو

تمہارے کوٹ پر ٹھہری ہوئی بارش کی بوندوں کو

سمیٹے گی، نہ جھاڑے گی

نہ تم سے کوٹ لے کر وہ

کسی کرسی کے ہتھے پر

اسے لٹکا کے اپنے نرم ہاتھوں سے

چھوئے گی اس طرح جیسے

تمہارا لمس پاتی ہو

تم آتشدان کے آگے، سمٹ کر بیٹھ جاؤ گے تو ایسا بھی نہیں ہو گا

تمہارے پاس وہ آ کر، بہت ہی گرم کافی کا ذرا سا گھونٹ خود لے کر

وہ کافی تم کو دے کر، تم سے یہ پوچھے

کہو کیا تھک گئے ہو تم؟

تم اپنی خالی آنکھوں سے

یوں اپنے سرد کمرے کو جو دیکھو گے تو سوچو گے

ٹھٹھر کر رہ گیا سب کچھ

تمہاری انگلیوں کی سرد پوروں پر

کسی رخسار کی نرمی

کسی کے ہونٹ کی گرمی

تمہیں بے ساختہ محسوس تو ہو گی

مگر پھر سرد موسم کی ہوا کا ایک ہی جھونکا

تمہیں بے حال کر دے گا

تھکے، ہارے، ٹھٹھرتے سرد بستر پر

اکیلے لیٹ جاؤ گے


سیما غزل

No comments:

Post a Comment