تمہارے ہجر میں سجدے طویل ہو گئے ہیں
میں چل پڑی ہوں تو رستے طویل ہو گئے ہیں
تجھے تو شام کا وعدہ بھی یاد آیا نہیں
کہ دن بھی ڈھل گیا، سائے طویل ہو گئے ہیں
تُو پاس تھا تو مِرے دن گُزرتے جاتے تھے
بچھڑ گیا ہے تو لمحے طویل ہو گئے ہیں
کبھی کبھار وہ آتا تھا، مِل بھی جاتا تھا
اسے بتاؤ، یہ وقفے طویل ہو گئے ہیں
اک عمر ہو گئی نکلی ہوں اپنے گاؤں سے
کہ رستے شہر کے کتنے طویل ہو گئے ہیں
فرح خان
No comments:
Post a Comment