Wednesday 23 December 2020

دشمنی لے لوں گا غدار نہیں ہو سکتا

 دشمنی لے لوں گا، غدار نہیں ہو سکتا

یار! شاعر ہوں، اداکار نہیں ہو سکتا

تجھ سے سینے پہ اگر وار نہیں ہو سکتا

تُو میری فوج کا سالار نہیں ہو سکتا

ہر کوئی دل کا طلبگار تو ہو سکتا ہے

ہاں، مگر ہر کوئی حقدار نہیں ہو سکتا

سر جدا کرتا مگر دل میں نہ اٹکا رہتا

یہ ترا تیر جو تلوار نہیں ہو سکتا

پیٹھ پہ وار فقط یار ہی کر سکتے ہیں

میرے دشمن کا یہ معیار نہیں ہو سکتا

جھوٹا میں بھی ہوں مگر یار! منافق ہے تُو

تُو مِرے یار! مِرا یار نہیں ہو سکتا

جو نبھاتے ہیں وہی پار اترتے ہیں اسیر

اس سے یہ دریا کبھی پار نہیں ہو سکتا


غلام نبی اسیر

No comments:

Post a Comment