جوش پر رنگ طرب دیکھ کے میخانے کا
جھک کے منہ چوم لیا شیشے نے پیمانے کا
سازِ عشرت سے نکلتی ہے صدائے ماتم
کیا یہ دنیا ہے مرقع مرے غم خانے کا؟
نظر آتی ہے ہر اک بت میں خدا کی قدرت
سلسلہ کعبہ سے ملتا ہے صنم خانے کا
مل گئی مل گئی داد اپنی وفاؤں کی مجھے
ہنس دیئے سن کے وہ قصہ مرے مر جانے کا
درس لے زندگئ شمع سے اے پروانے
عاشقی نام ہے مر مر کے جئے جانے کا
کنجِ مرقد میں بھی آرام سے سو نا معلوم
نقش ابھی دل میں ہے گزرے ہوئے افسانے کا
شمع رو رو کے اسی غم میں گھلی جاتی ہے
خون ناحق مری گردن پہ ہے پروانے کا
دیدۂ تر نے کئے راہ میں دریا حائل
قصد اس نے جو کیا دل سے کبھی جانے کا
حرم و دیر میں کس طرح لگے دل اس کا
جس کی نظروں میں ہو نقشہ ترے کاشانے کا
دیکھ جاؤ مرے مرنے کا تماشا تم بھی
آخری باب ہے یہ زیست کے افسانے کا
حسن اور عشق کی تفسیر مکمل ہو جائے
شمع کے ساتھ رہے تذکرہ پروانے کا
مخفی اس طرح سے کچھ عمر بسر کی ہم نے
زندگی کا ہوا اطلاق نہ مر جانے کا
مخفی بدایونی
No comments:
Post a Comment