گھُپ خاموشی جیسے قبرستان میں ہوں
کیا میں زندہ لاشوں کے استھان میں ہوں
رات ڈھلے ویرانی ملنے آتی ہے
جانتی ہے میں اس کے عقدِ امان میں ہوں
سرد ہوائیں، یاد اس کی، بپھرا موسم
وحشتِ زیست بتا میں کس کے دھیان میں ہوں
پھر سرسبز ہوئے جاتے ہیں سارے پیڑ
لگتا ہے اک میں ہی نمک کی کان میں ہوں
جانتے ہو اس وقت مری حالت ہے کیا
کالا پھول اداسی کے گلدان میں ہوں
واپس جانے والے گھر کو جاتے ہیں
میں آزاد پرندہ کس زندان میں ہوں
لو سے زیادہ تیز نگاہوں کی آندھی
میں جیون کے ایسے ریگستان میں ہوں
انعمتا علی
No comments:
Post a Comment