یوں سبکدوش ہوں جینے کا بھی الزام نہیں
آہ، اتنی بڑی دنیا میں کوئی کام نہیں
میری تحقیق، مرا حسن نظر عام نہیں
کوئی عالم ہو مرے آئینہ میں شام نہیں
اوس دامن پہ ہے آنکھوں میں نمی کی جھلکی
صبح ہونے پہ بھی آسودگئ شام نہیں
مست ہوں نشۂ پرواز میں اب ہوش کہاں
ہمنوا! دیکھ مرا رخ تو سوئے دام نہیں
ماتم اب خاک کروں بے سروسامانی کا
اک دِیا آج میسر ہے تو اب شام نہیں
نشۂ ہوش پہ تھی کم نظری کی تہمت
کھل گئی آنکھ تو اب کوئی سرِ بام نہیں
یاد ہیں چشمِ نوازش کے وہ پیہم نشتر
اب تو بے گانہ نگاہی کا بھی پیغام نہیں
کوئی سرخی ہو تو افسانہ سمجھ میں آئے
ہائے وہ دل کی خلش جس کا کوئی نام نہیں
غسل توبہ کے لیے بھی نہیں ملتی ہے شراب
اب ہمیں پیاس لگی ہے، تو کوئی جام نہیں
پھر اجالا ہی اجالا نظر آتا ہے سراج
دل ہو بیدار تو دنیا میں کبھی شام نہیں
سراج لکھنوی
No comments:
Post a Comment