ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہو گا
لٹ گئی دولت احساس تو پھر کیا ہو گا
کون تا صبح جلائے گا تمنا کے چراغ
شام سے ٹوٹ گئی آس تو پھر کیا ہو گا
جن کی دوری میں وہ لذت ہے کہ بیتاب ہے دل
آ گئے وہ جو کہیں پاس تو پھر کیا ہو گا
تم سے زندہ ہے تمنائے مذاق احساس
تم ہوئے دشمن احساس تو پھر کیا ہو گا
دل غم دوست پہ مغرور بہت ہے لیکن
غم بھی آیا نہ اگر راس تو پھر کیا ہو گا
اپنی مخمور نگاہوں کو نہ دو اذن خرام
بڑھ گئی اور اگر پیاس تو پھر کیا ہو گا
ہم پریشاں تھے پریشاں ہیں پریشاں ہوں گے
تم کو آئی نہ خوشی راس تو پھر کیا ہو گا
عظمت عشق ہے خودداریٔ دل تک شاعر
بجھ گیا شعلۂ احساس تو پھر کیا ہو گا
شاعر لکھنوی
No comments:
Post a Comment