Wednesday, 2 December 2020

ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہو گا

 ان کا غم بھی نہ رہا پاس تو پھر کیا ہو گا

لٹ گئی دولت احساس تو پھر کیا ہو گا

کون تا صبح جلائے گا تمنا کے چراغ

شام سے ٹوٹ گئی آس تو پھر کیا ہو گا

جن کی دوری میں وہ لذت ہے کہ بیتاب ہے دل

آ گئے وہ جو کہیں پاس تو پھر کیا ہو گا

تم سے زندہ ہے تمنائے مذاق احساس

تم ہوئے دشمن احساس تو پھر کیا ہو گا

دل غم دوست پہ مغرور بہت ہے لیکن

غم بھی آیا نہ اگر راس تو پھر کیا ہو گا

اپنی مخمور نگاہوں کو نہ دو اذن خرام

بڑھ گئی اور اگر پیاس تو پھر کیا ہو گا

ہم پریشاں تھے پریشاں ہیں پریشاں ہوں گے

تم کو آئی نہ خوشی راس تو پھر کیا ہو گا

عظمت عشق ہے خودداریٔ دل تک شاعر

بجھ گیا شعلۂ احساس تو پھر کیا ہو گا


شاعر لکھنوی

No comments:

Post a Comment