Tuesday, 1 December 2020

ایسا پھنسا ہوا تھا نگاہوں کے داؤ میں

 ایسا پھنسا ہوا تھا نگاہوں کے داؤ میں

جل جل کے بجھ گیا میں کشش کے الاؤ میں

تیری فضا میں رہ کے توازن بنا رہا

ورنہ میں ٹکڑے ہو گیا ہوتا تناؤ میں

پاؤں زمیں نے کھینچ کے رکھے ہیں مستقل

اور سر بگڑ گیا ہے فلک کے کھچاؤ میں

برسوں لگے بدلنے میں دریا کو راستہ

بدلا تو خود بھی آ گیا اپنے کٹاؤ میں

دنیا نے یوں شعور کی وسعت پہ ضرب کی

ہم لوگ گر گئے ہیں سمندر سے ناؤ میں

دل نے پھر اس کی سمت جھکاؤ بڑھا دیا

اس بار پھر وہ جیت گیا ہے چناؤ میں

سر سے مرے وہ ہاتھ اچانک سرک گیا

گرتا نہ تھا پتنگ مرا جس کے تاؤ میں


اجمل فرید

No comments:

Post a Comment