ایسا پھنسا ہوا تھا نگاہوں کے داؤ میں
جل جل کے بجھ گیا میں کشش کے الاؤ میں
تیری فضا میں رہ کے توازن بنا رہا
ورنہ میں ٹکڑے ہو گیا ہوتا تناؤ میں
پاؤں زمیں نے کھینچ کے رکھے ہیں مستقل
اور سر بگڑ گیا ہے فلک کے کھچاؤ میں
برسوں لگے بدلنے میں دریا کو راستہ
بدلا تو خود بھی آ گیا اپنے کٹاؤ میں
دنیا نے یوں شعور کی وسعت پہ ضرب کی
ہم لوگ گر گئے ہیں سمندر سے ناؤ میں
دل نے پھر اس کی سمت جھکاؤ بڑھا دیا
اس بار پھر وہ جیت گیا ہے چناؤ میں
سر سے مرے وہ ہاتھ اچانک سرک گیا
گرتا نہ تھا پتنگ مرا جس کے تاؤ میں
اجمل فرید
No comments:
Post a Comment