یہ سانحہ بھی ہوا ہے تِری خدائی میں
طلاق دی گئی دلہن کو منہ دکھائی میں
نہ ان کو جھوٹ پہ اکسا یہ سادہ لوگ کبھی
درود پڑھتے رہے تیری ہمنوائی میں
شدید غصے میں سترنگی چوڑیوں کے ساتھ
ہمارا دل بھی ہے ٹوٹا تِری کلائی میں
وہ موت کے ادب آداب سے نہیں واقف
جو جھانکتا ہے پہاڑوں سے روز کھائی میں
راکب مختار
No comments:
Post a Comment