Monday, 1 February 2021

یار کیسی عجب اداسی ہے

 یار کیسی عجب اداسی ہے

ہر خوشی کا سبب اداسی ہے

دن اداسی ہے شب اداسی ہے

تُو نہیں ہے تو سب اداسی ہے

کیسے بولوں کہ میرے سینے میں

پہلے دل تھا پر اب اداسی ہے

بول کس منہ سے مسکرائیں وہ

جن کا حسب و نسب اداسی ہے

کندھا رونے کو دستیاب نہیں

اور اس پر غضب اداسی ہے

کوئی امکان کب ہے خوشیوں کا

اپنے جینے کا ڈھب اداسی ہے


غلام نبی اسیر

No comments:

Post a Comment