یار کیسی عجب اداسی ہے
ہر خوشی کا سبب اداسی ہے
دن اداسی ہے شب اداسی ہے
تُو نہیں ہے تو سب اداسی ہے
کیسے بولوں کہ میرے سینے میں
پہلے دل تھا پر اب اداسی ہے
بول کس منہ سے مسکرائیں وہ
جن کا حسب و نسب اداسی ہے
کندھا رونے کو دستیاب نہیں
اور اس پر غضب اداسی ہے
کوئی امکان کب ہے خوشیوں کا
اپنے جینے کا ڈھب اداسی ہے
غلام نبی اسیر
No comments:
Post a Comment