ہر طرف شورِ فغاں ہے کوئی سُنتا ہی نہیں
قافلہ ہے کہ رواں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
اک صدا پوچھتی رہتی ہے؛ کوئی زندہ ہے
میں کہے جاتا ہوں؛ ہاں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
میں جو چپ تھا، ہمہ تن گوش تھی بستی ساری
اب مِرے منہ میں زباں ہے، کوئی سنتا ہی نہیں
ایک ہنگامہ کہ اس دل میں بپا رہتا تھا
اب کراں تابہ کراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
دیکھنے والے تو اس شہر میں یوں بھی کم تھے
اب سماعت بھی گراں ہے کوئی سنتا ہی نہیں
کیا ستم ہے کہ مِرے شہر میں میری آواز
جیسے آوازِ سگاں ہے، کوئی سنتا ہی نہیں
عباس رضوی
No comments:
Post a Comment