Wednesday 24 February 2021

جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے

 جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے

وہ امن کے سر سبز جزیرے کی طرح ہے

شبنم کی طرح ہے کبھی شعلے کی طرح ہے

تُو بھی کسی فنکار کے لہجے کی طرح ہے

میں آج یہ آئینے⌗ میں کیا دیکھ رہا ہوں

یہ عکس تو بالکل تِرے چہرے کی طرح ہے

اِک شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی فضا کیا

صحرا میں بھٹکتے ہوئے پیاسے کی طرح ہے

دیکھا ہے اثر یورشِ طوفانِ بلا کا

اک موجِ سبک رو کے طمانچے کی طرح ہے

اڑتی ہوئی گلشن میں دکھائی نہیں دیتی

خوشبو کسی نادیدہ پرندے کی طرح ہے

پلکوں پہ اک آنسو ہے ابھی دل کی نشانی

وہ بھی کسی بجھتے ہوئے تارے کی طرح ہے

دم توڑتے لمحوں میں تِرے آنے کا مژدہ

گرتی ہوئی دیوار کے سائے کی طرح ہے

جو سانس گزر جائے حزیں جان غنیمت

یہ دورِ زبوں ایک فتیلے کی طرح ہے


حزیں صدیقی

No comments:

Post a Comment