جس گھر کی فضا ایک قبیلے کی طرح ہے
وہ امن کے سر سبز جزیرے کی طرح ہے
شبنم کی طرح ہے کبھی شعلے کی طرح ہے
تُو بھی کسی فنکار کے لہجے کی طرح ہے
میں آج یہ آئینے⌗ میں کیا دیکھ رہا ہوں
یہ عکس تو بالکل تِرے چہرے کی طرح ہے
اِک شاخ سے ٹوٹے ہوئے پتے کی فضا کیا
صحرا میں بھٹکتے ہوئے پیاسے کی طرح ہے
دیکھا ہے اثر یورشِ طوفانِ بلا کا
اک موجِ سبک رو کے طمانچے کی طرح ہے
اڑتی ہوئی گلشن میں دکھائی نہیں دیتی
خوشبو کسی نادیدہ پرندے کی طرح ہے
پلکوں پہ اک آنسو ہے ابھی دل کی نشانی
وہ بھی کسی بجھتے ہوئے تارے کی طرح ہے
دم توڑتے لمحوں میں تِرے آنے کا مژدہ
گرتی ہوئی دیوار کے سائے کی طرح ہے
جو سانس گزر جائے حزیں جان غنیمت
یہ دورِ زبوں ایک فتیلے کی طرح ہے
حزیں صدیقی
No comments:
Post a Comment