شہر گم صم راستے سنسان گھر خاموش ہیں
کیا بلا اتری ہے کیوں دیوار و در خاموش ہیں
وہ کھلیں تو ہم سے راز دشت وحشت کچھ کھلے
لوٹ کر کچھ لوگ آئے ہیں مگر خاموش ہیں
ہو گیا غرقاب سورج اور پھر اب اس کے بعد
ساحلوں پر ریت اڑتی ہے بھنور خاموش ہیں
منزلوں کے خواب دے کر ہم یہاں لائے گئے
اب یہاں تک آ گئے تو راہبر خاموش ہیں
دکھ سفر کا ہے کہ اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم
کیا سبب ہے وقت رخصت ہم سفر خاموش ہیں
کل شجر کی گفتگو سنتے تھے اور حیرت میں تھے
اب پرندے بولتے ہیں اور شجر خاموش ہیں
جب سے اظہر خال و خد کی بات لوگوں میں چلی
آئینے چپ چاپ ہیں، آئینہ گر خاموش ہیں
اظہر نقوی
No comments:
Post a Comment