زندگی دیکھ تجھے ہم سے خسارہ کیا ہے
جینے تُو خود نہیں دیتی تو، ہمارا کیا ہے
ایک دریا کو شناسائی ہے رستے کی مگر
اس کو یہ عِلم نہیں ہے کہ کنارہ کیا ہے
زندگی پوچھنے والوں کے سوالات کو سن
اور ان سب کو بتا ان کا کفارہ کیا ہے
عشق سے ہار کے لَوٹے تو ہمیں یاد آیا
دن میں دیکھے ہوئے تاروں کا نظارہ کیا ہے
پاؤں لگتے ہیں مجھے میرے زمیں کے نیچے
عشق کے نام پہ اس دل میں اتارا کیا ہے
سجاد کاتب
No comments:
Post a Comment