یوں نہ ٹھہراؤ ہمیں موردِ الزام ابھی
ہم کو ڈر ہے کہیں ہو جائیں نہ بدنام ابھی
اس سے پہلے کہ سنبھل جاؤں میں گھر کو لوٹوں
ہائے ساقی! کہ جگر پاش ہے دے جام ابھی
کیا خبر تھی تُو محبت سے مُکر جائے گا
حیف لے بیٹھے ہیں محفل میں تِرا نام ابھی
کیا قیامت ہے کہ خوں روتا ہے تُو پردے میں
اور زندہ ہیں تِرے ہجر میں خدام ابھی
حالت ایسی ہے کہ دم بھر کو نہیں چین مگر
تم جو آ جاؤ تو آ جائے گا آرام ابھی
پوچھتے کیا ہو مِرے گِریہ و ماتم کا سبب
میری آنکھوں میں ہیں جلتے ہوئے خیام ابھی
میرے سردار ہیں سلطان، شہِؑ دشتِ بلا
جن کے سجدے کے سبب زندہ ہے اسلام ابھی
علی سلطان
No comments:
Post a Comment