کوئی جب دل کے اندر ناچتا ہے
تو انساں ہو کہ پتھر، ناچتا ہے
تصوّر یا حقیقت ہے کہ اکثر
مِرا سر مجھ سے کٹ کر ناچتا ہے
ہُوا یوں بھی کہ مرشد کو منانے
کبھی کوئی قلندر ناچتا ہے
میں لکھتا ہوں مدینہ دل کے اوپر
تو دل کا سارا اندر ناچتا ہے
میں جب کرتا ہوں جانے کی مدینہ
ادب سے دل میں اک ڈر ناچتا ہے
وہ آ جاتے ہیں جس سینے کے اندر
وہ مسجد ہو کہ مندر ناچتا ہے
وہ جب بھی پاس آ جاتے ہیں میرے
تو گھر کا سارا منظر ناچتا ہے
جمی ہے برف باہر چار جانب
لہو میرا برابر ناچتا ہے
میں جب بھی ڈالتا ہوں دل کی کشتی
تو اٹھ اٹھ کر سمندر ناچتا ہے
سبھی دیوار و در کہتے ہیں جاوید
قدم اب روکیے، گھر ناچتا ہے
عبداللہ جاوید
No comments:
Post a Comment