Monday, 22 February 2021

نہ کوئی فکر نہ لہجہ تلاش کرتے ہیں

 نہ کوئی فکر نہ لہجہ تلاش کرتے ہیں 

غزل میں ہم تیرا چہرہ تلاش کرتے ہیں

نہ کوئی تاج نہ تمغہ تلاش کرتے ہیں 

ہم اپنی فکر کی دنیا تلاش کرتے ہیں 

سنا ہے پھر کوئی طوفان آنے والا ہے 

پرندے آج ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں

کسی فقیر کو اتنا حقیر مت سمجھو 

یہ لوگ قطرے میں دریا تلاش کرتے ہیں 

جنہوں نے رخت سفر تک ابھی نہیں باندھا

وہ لوگ پاؤں میں چھالا تلاش کرتے ہیں

ضرورتوں نے بھٹکنے پہ کر دیا مجبور 

سکوں کا جب کوئی لمحہ تلاش کرتے ہیں

پھر آج تشنہ لبی نے خراج مانگا ہے

چلو فرات پہ پہرا تلاش کرتےہیں

خراشیں وقت نے چہروں پہ ایسی کھینچی ہے 

ہم اپنا شیشے میں چہرہ تلاش کرتے ہیں

کچھ ایسے غم کے سمندر نے گھیر رکھا ہے

کئی دنوں سے جزیرہ تلاش کرتے ہیں

جو اپنی فکر سے اک شعر کہہ نہیں سکتے 

مری غزل میں وہ نقطہ تلاش کرتے ہیں

سکونِ قلب ہے میرے لیے در جاناں 

وہ اور ہونگے جو قبلہ تلاش کرتے ہیں

خدا ہی خیر کرے ذہن کے ان اندھوں کا 

چراغ لے کے اجالا تلاش کرتے ہیں

سنا ہے بستی نے کا سوں کی آبرو رکھ لی

تو چلئے ہم بھی فرشتہ تلاش کرتے ہیں

کچھ ایسے یار کے جلووں کی جستجو ہے دل 

کی جیسے طور پہ موسٰی تلاش کرتے ہیں


دل سکندر پوری

No comments:

Post a Comment