نہ کوئی فکر نہ لہجہ تلاش کرتے ہیں
غزل میں ہم تیرا چہرہ تلاش کرتے ہیں
نہ کوئی تاج نہ تمغہ تلاش کرتے ہیں
ہم اپنی فکر کی دنیا تلاش کرتے ہیں
سنا ہے پھر کوئی طوفان آنے والا ہے
پرندے آج ٹھکانہ تلاش کرتے ہیں
کسی فقیر کو اتنا حقیر مت سمجھو
یہ لوگ قطرے میں دریا تلاش کرتے ہیں
جنہوں نے رخت سفر تک ابھی نہیں باندھا
وہ لوگ پاؤں میں چھالا تلاش کرتے ہیں
ضرورتوں نے بھٹکنے پہ کر دیا مجبور
سکوں کا جب کوئی لمحہ تلاش کرتے ہیں
پھر آج تشنہ لبی نے خراج مانگا ہے
چلو فرات پہ پہرا تلاش کرتےہیں
خراشیں وقت نے چہروں پہ ایسی کھینچی ہے
ہم اپنا شیشے میں چہرہ تلاش کرتے ہیں
کچھ ایسے غم کے سمندر نے گھیر رکھا ہے
کئی دنوں سے جزیرہ تلاش کرتے ہیں
جو اپنی فکر سے اک شعر کہہ نہیں سکتے
مری غزل میں وہ نقطہ تلاش کرتے ہیں
سکونِ قلب ہے میرے لیے در جاناں
وہ اور ہونگے جو قبلہ تلاش کرتے ہیں
خدا ہی خیر کرے ذہن کے ان اندھوں کا
چراغ لے کے اجالا تلاش کرتے ہیں
سنا ہے بستی نے کا سوں کی آبرو رکھ لی
تو چلئے ہم بھی فرشتہ تلاش کرتے ہیں
کچھ ایسے یار کے جلووں کی جستجو ہے دل
کی جیسے طور پہ موسٰی تلاش کرتے ہیں
دل سکندر پوری
No comments:
Post a Comment