Monday, 22 February 2021

قید اور قید بھی تنہائی کی

 قید اور قید بھی تنہائی کی

شرم رہ جائے شکیبائی کی

سوجھتا کیا ہمیں ان آنکھوں سے

شرط تھی قلب کی بینائی کی

در بت خانہ سے بڑھنے ہی نہ پائے

گرچہ اک عمر جبیں سائی کی

قیس کو ناقۂ لیلیٰ نہ ملا    

گو بہت بادیہ پیمائی کی

ہم نے ہر ذرے کو محمل پایا

ہے یہ قسمت تِرے صحرائی کی

وقف ہے اس کے لیے جان عزیز

کعبہ کے خادم و شیدائی کی

کعبہ و قدس میں گھر کیا یہ بھی

اک ادا ہے مِرے ہرجائی کی

نظر آیا ہمیں ہر چیز میں تو

اس پہ یہ دھوم ہے یکتائی کی

عشق اور جور ستم گر

عشق کو ہم نے کیا نذرِ جنوں

عمر بھر میں یہی دانائی کی

کر گئی زندۂ جاوید ہمیں

تیغ قاتل نے مسیحائی کی

ہو نہ تقلید دلا مقتل میں

کہیں موسیٰ سے تمنائی کی

نہ سہی تیغ تجلی ہی سہی

آنکھ جھپکے نہ تماشائی کی

کل کو ہے پھر وہی زنداں جوہر

ٹھیک کیا آپ سے سودائی کی


مولانا محمد علی جوہر

No comments:

Post a Comment