Monday, 22 February 2021

تو نہیں ہے تو ترے ہم نام سے رشتہ رکھا

 تُو نہیں ہے تو تِرے ہمنام سے رشتہ رکھا

ہم نے یوں بھی دلِ ناکام کو زندہ رکھا

وہ مِری جان کا دشمن کہ سرِ نہرِ وصال

سب کو سیراب کیا بس مجھے پیاسا رکھا

میرے مولا تِری منطق بھی عجب منطق ہے

ہونٹ پہ پیاس رکھی آنکھ میں دریا رکھا

سب کے ہاتھوں کی لکیروں میں مقدر رکھ کے

رکھنے والے نے مِرے ہاتھ پہ صحرا رکھا

سب کے سب لوٹ رہے تھے تِری دولت رانی

میں نے تو صرف تِرے شہر کا نقشہ رکھا

جس بلندی پہ رضا میں نے سجائے تمغے

اس بلندی پہ ہی ٹوٹا ہوا کاسہ رکھا


ہاشم رضا جلالپوری

No comments:

Post a Comment