Tuesday, 2 February 2021

آنکھوں سے تیری یاد کے ہالے نہیں گئے

 آنکھوں سے تیری یاد کے ہالے نہیں گئے

ایسے دئیے ہیں زخم نرالے، نہیں گئے

چھیڑی جو باتِ حُسن رقیبوں نے بزم میں

تیرا ہی ذکر، تیرے حوالے نہیں گئے

سنتے ہیں شام ہوتے ہی آتا ہے بام پر 

شب کٹ چکی پہ جاگنے والے نہیں گئے

ہم آپ کی خوشی کے لیے ہی جدا ہوئے

ہم سے تمہارے حکم بھی ٹالے نہیں گئے

لمبی مسافتوں کی تھکن کا ہو پوچھتے

کٹ کر گرے ہیں پاؤں، پہ چھالے نہیں گئے

رکھتا ہو ساری چیزوں کو جو احتیاط سے 

کیوں اس سے ایک ہم ہی سنبھالے نہیں گئے

بیٹھے رہے جنہیں اس نے جانے کا بھی کہا

محفل سے اس کی ہم تو نکالے نہیں گئے

رستہ تمہارا تکتے ہوئی مدتیں جنہیں 

ان کی ابھی بھی آنکھ سے جالے نہیں گئے

جس نے دِیا جلایا ہو آندھی کی سَمت میں 

اس کے کبھی بھی گھر سے اجالے نہیں گئے

خیراتِ غم ملی تو گلے سے لگا لیا

کھویا نہ ہوش کاسے اچھالے نہیں گئے

غم اس طرح ہوئے ہیں یوں اب مجھ پہ مہرباں

جتنی بھی بار گھر سے نکالے نہیں گئے

شامل لہو ہو جس میں غریبوں کا بالخصوص

ایسے کبھی گلے میں نوالے نہیں گئے

جس جس کو علم تھا کہ صنم میکدے میں ہے

سب چل پڑے مگر ہوش والے نہیں گئے


عجیب ساجد

No comments:

Post a Comment